لندن: جولیئن اسانج جو کہ وکی لیکس کے بانی ہے انکو امریکا کے حوالے کرنے کا مقدمہ بھی جیت لیا ہے۔اب جولیئن اسانج امریکا کی قید میں رہ سکتے ہیں۔ بظاہر اس سے ان کی امریکی حوالگی کی راہ اب ہموار ہوگئی ہے۔
گذشتہ روز برطانیہ کی ہائی کورٹ نے امریکی درخواست کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس کے فیصلہ کے تحت عالمی ، عسکری اور قومی راز فاش کرنے کے جرم میں برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے والے پچاس سالہ جولیئن اسانج کو امریکا کے حوالے کر دیا جائے گا۔
اس وقت جولیئن اسانج برطانیہ کی جیل میں سیکرٹ دستاویز وکی لیکس نامی ویب سائٹ پر جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ مگراب بھی برطانیہ کی عدالت کو اس کا مکمل اختیار ہے۔ کہ وہ وکی لیکس کے بانی کو امریکا بھیجا جائے یا نہیں۔ دوسری طرف امریکی وکیل نے یہ کہا ہے۔ کہ اسانج کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا جائے گا۔
غیر معمولی سیکیورٹی کے باوجود اس موقع پر ہزاروں لوگوں نے جولیئن کے حق میں احتجاج کیا۔ اسٹیلا مورِس جو کہ ان کی معاون ہیں۔
انہوں نے اسے انصاف اورسچائی کا قتل کہا ہے۔ اور اس کے خلاف اپیل دائر کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس سال کے شروع میں زیریں عدالت نے ایک بارامریکی درخواست یہ کہہ کر رد کردی تھی۔ کہ جولیئن اسانج کی جسمانی اور ذہنی حالت بہتر نہیں ہے۔
اس سے پہلے 2019 میں بھی 50 سے زیادہ ڈاکٹروں نے برطانونی حکومت کو ایک خط کے ذریعے وکی لیکس کے بانی جولیئن اسانج کی دماغی اور نفسیاتی صحت کے متعلق تشویش سے آگاہ کیا تھا۔